کب دلیلِ
کب دلیلِ خدا ملتی ہے
ایک تیری ادا ملتی ہے
زندگی بے طلب مل گئی
مشکلوں سے قضا ملتی ہے
عشق کر کے پتہ یہ چلا
مرض میں بھی شفا ملتی ہے
پوچھتے ہیں جگر سے مرے
اس دکاں سے حنا ملتی ہے ؟
اپنی قسمت کا بھی کیا کہوں
آرزو پر سزا ملتی ہے
ختم کرتا ہوں اس بحث کو
جس پہ تیری رضا ملتی ہے
*رند* ہے سر بہ سر بے وفا
آپ ہی میں وفا ملتی ہے